ہمارے یار اکبر الہ آبادی کا یوم ولادت
جب میں کہتا ہوں کہ یا اللہ میرا حال دیکھ
حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامۂ اعمال دیکھ
یومِ پیدائش
اکبر الہ آبادی
اْردو ادب کے قاری جب اکبر الہ آبادی کی ظرافت سے بھرپور اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہنستے ہیں، مسکراتے ہیں اور جب اس شاعری کو سامنے رکھ کر اپنا محاسبہ کرتے ہیں تو شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔ 16 نومبر 1846 میں تفضل حسین کے گھرانے میں پیدا ہوئے اکبر الٰہ آبادی، جن کا اصل نام سید اکبر حسین تھا، نے اپنی شاعری سے اصلاح معاشرہ کا وہ کام لیا جو سر سید احمد خان اور علامہ اقبال جیسی شخصیتوں کا شیوہ رہا۔ انھوں نے اپنی شاعری میں اکثر سماجی برائیوں، مغربی تہذیب اور لادینیت کو طنز و مزاح کے پیکر میں ڈال کر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کی اس طرز شاعری کی خوبی ہی تھی کہ لوگوں کی انا کو ٹھیس بھی نہیں پہنچتی تھی اور وہ اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور بھی ہو جاتے تھے، مثلاً
دنیا میں لذتیں ہیں نمائش ہے شان ہے
ان کی طلب میں حرص میں سارا جہان ہے
اکبر سے سنو کہ جو اس کا بیان ہے
دنیا کی زندگی فقط اک امتحان ہے
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اکبر الٰہ آبادی مغربی تعلیم کے دلدادہ سر سید احمد خان کے مخالف تھے۔ لیکن دونوں شخصیتوں پر گہری نظر رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ سر سید سے اکبر کا اختلاف شخصی نہیں بلکہ نظریاتی تھا۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اکبر الٰہ آبادی مغربی تہذیب اور برطانوی عادات و اطوار سے انتہائی درجہ نفرت کرتے تھے۔ سر سید سے اختلاف بھی اسی سلسلے میں تھا، ورنہ اپنی زندگی کی آخر وقت میں انھوں نے سر سید کے کاموں کی تعریف کئی اشعار کے ذریعہ کی ہے۔ اس اشعار کو پڑھ کرآپ کو یہ بھی اندازہ ہوگا کہ وہ سر سید کی کارگزاری سے خوش تھے اور ان کے ذریعہ کئے گئے کاموں کے دلدادہ بھی۔صدیق الرحمن قدوائی نے اپنی کتاب ’انتخاب اکبرالہ آبادی ‘ میں اس تعلق سے بہت خوب لکھا ہے اور سرسید و حالی کی طرح اکبر کو بھی اصلاح پسند ادیب قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’ اکبر کے نزدیک شاعری کا مقصد زندگی کی تنقید و اصلاح تھا۔ سرسید تحریک کے علمبرداروں نے اور اکبر نے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق شاعری کے ذریعے قومی اصلا ح کی کوشش کی۔سماجی اعتبار سے متضاد نقطہ نظر رکھنے کے باوجود سرسید، حالی اور اکبر یکساں ادبی نقطہ نظر کے حامل تھے‘‘۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اکبرالہ آبادی نے انگریزی زبان یا مغرب کی اچھی چیزوں کو اختیار کرنے سے منع نہیں فرمایا، اگر اپنی شاعری میں کہیں ’انگریزی‘ یا ’انگلش‘ کی تنقید کی ہے تو ان کا اشارہ انگریزی یا مغربی تہذیب کی طرف ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں جا بجا انگریزی الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے جو ثابت کرتا ہے کہ وہ انگریزی زبان کے مخالف نہیں تھے۔ اس کی مثال ان کے ہی اشعار سے ملاحظہ فرمائیے:
عاشقی کا ہو برا اس نے بگاڑے سارے کام
ہم توABمیں رہے اغیار BAہوگئے
تم شوق سے کالج میں پڑھو پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
پر ایک سخن بندہ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
اکبر الہ آبادی کو انگریزوں سے سخت درجہ کی نفرت تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے 1857 کی جنگ اور انگریزوں کے مظالم کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کالج و یونیورسٹیوں میں انگریزی طرز تعلیم کے خلاف خوب آواز اٹھائی۔ لسان العصر کے لقب سے سرفراز اکبر االہ آبادی نے ہمیشہ اسلامی تہذیب کا پاس رکھا اور مسلمانوں سے ہمیشہ یہی گزارش کی کہ وہ اپنی تابناک تہذیب و ثقافت سے دستبردار نہ ہوں۔ اس معاملے میں ان کا ذہن کافی حد تک علامہ اقبال سے وابستہ تھا، بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ علامہ اقبال اکبرالہ آبادی کو اپنا مرشد معنوی تصور کرتے تھے۔ اقبال نے اکبر الٰہ آبادی کے نام 6 اکتوبر 1911 کو لکھے ایک خط میں اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’میں آپ کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس نگاہ سے کوئی مرید اپنے پیر کو دیکھے اور وہی محبت اور عقیدت اپنے دل میں رکھتا ہوں، خدا کرے وہ وقت جلد آئے کہ مجھے آپ سے شرف نیاز حاصل ہو اور میں اپنے دل کو چیر کر آپ کے سامنے رکھ دوں۔ لاہور ایک بڑا شہر ہے لیکن میں اس ہجوم میں تنہا ہوں، ایک فرد واحد بھی ایسا نہیں جس سے دل کھول کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جا سکے‘‘۔ انھوں نے اپنے ایک شعر میں اس بات کا اظہار بھی کیا جو اس طرح ہے:
دعویٰ علم و فرد میں جوش تھا اکبر کو رات
ہو گیا ساکت جب ذکر اقبال آگیا
ادب صرف شعر و شاعری یا داستان گوئی و افسانہ سازی نہیں بلکہ تنقید حیات کا بھی نام ہے۔ ہر ادیب اپنی زندگی میں الگ الگ طریقے سے تنقید حیات کا کام کرتا رہتا ہے، اور اکبر الٰہ آبادی نے بھی اپنی ایک منفرد راہ اختیار کی تھی۔ ان کی شاعری جس قدرآسان فہم اور سہل ہوا کرتی تھی وہ اس سے کہیں زیادہ ذہین تھے۔ انہوں نے ادب ‘فلسفہ اور مذہب کی کتابیں خوب پڑھی تھیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے انگریزی کتاب’فیوچر آف اسلام ‘ کا سلیس اور با محاورہ ترجمہ بھی کیا۔ وہ ایک ذہین اور باصلاحیت انسان تھے جنھوں نے تحصیلداری بھی کی، عدالت خفیفہ کی منصفی بھی کی، سیشن جج بھی رہے اور اپنی خدمات کے باعث ’خان بہادر‘ کا خطاب بھی حاصل کیا۔ انہیں ہائی کورٹ میں جج بننے کا بھی موقع حاصل ہوا تاہم خرابی صحت کے سبب 1903 میں قبل از وقت وظیفہ پر سبکدوش ہوگئے۔ سبکدوشی کے بعد انھوں نے پوری طرح سے خود کو شعر و ادب اور اصلاحِ معاشرہ کے لئے وقف کر دیا۔ زندگی کے آخر وقت میں انھوں نے ایک زمانہ شناس، ماہر نباض اور حاذق حکیم کی صورت اختیار کی اور اپنی شاعری میں کھری کھری باتیں سنانے کے ساتھ ساتھ مرض کا علاج بھی بتایا۔ ان کی نظم ’تعلیم نسواں‘ اس کی بہترین مثال ہے جس میں انھوں نے انتہائی ناصحانہ انداز اختیار کیا ہے۔ اس نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے
لڑکی جو بے پڑھی ہو تو وہ بے شعور ہے
داتا نے دھن دیا ہے تو دل سے غنی رہو
پڑھ لکھ کے اپنے گھر ہی دیوی بنی رہو
مشرق کی چال ڈھال کا معمول اور ہے
مغرب کے ناز و رقص کا اسکول اور ہے
اکبر الٰہ آبادی کا نام جب بھی زبان پرآتا ہے تو لوگ کے چہرے پر مسکراہٹ نظرآنے لگتی ہے اور ان کے مزاحیہ اشعار ذہن میں گردش کرنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے قطعی انکار ممکن نہیں کہ وہ اصلاح ملت کے عظیم علمبردار ہیں۔ وہ مزاحیہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ جدید فلسفی شاعر بھی تھے۔ اس عظیم اور خاکسار شاعر کا انتقال 9 ستمبر 1921 کو الٰہ آباد میں ہوا اور یہیں کی خاک میں دفن کئے گئے۔ اس مشہور عام شاعر کے بے شمار اشعار ہیں جو لوگوں کی زبان زد ہیں۔آخر میں پیش ہیں کچھ ایسے ہی اشعار جنھیں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا:
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
اک دن تھا وہ کہ دب گئے تھے لوگ دین سے
اک دن یہ ہے کہ دین دبا ہے مشین سے
بتاؤں آپ سے مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا
حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامۂ اعمال دیکھ
یومِ پیدائش
اکبر الہ آبادی
اْردو ادب کے قاری جب اکبر الہ آبادی کی ظرافت سے بھرپور اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہنستے ہیں، مسکراتے ہیں اور جب اس شاعری کو سامنے رکھ کر اپنا محاسبہ کرتے ہیں تو شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔ 16 نومبر 1846 میں تفضل حسین کے گھرانے میں پیدا ہوئے اکبر الٰہ آبادی، جن کا اصل نام سید اکبر حسین تھا، نے اپنی شاعری سے اصلاح معاشرہ کا وہ کام لیا جو سر سید احمد خان اور علامہ اقبال جیسی شخصیتوں کا شیوہ رہا۔ انھوں نے اپنی شاعری میں اکثر سماجی برائیوں، مغربی تہذیب اور لادینیت کو طنز و مزاح کے پیکر میں ڈال کر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کی اس طرز شاعری کی خوبی ہی تھی کہ لوگوں کی انا کو ٹھیس بھی نہیں پہنچتی تھی اور وہ اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور بھی ہو جاتے تھے، مثلاً
دنیا میں لذتیں ہیں نمائش ہے شان ہے
ان کی طلب میں حرص میں سارا جہان ہے
اکبر سے سنو کہ جو اس کا بیان ہے
دنیا کی زندگی فقط اک امتحان ہے
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اکبر الٰہ آبادی مغربی تعلیم کے دلدادہ سر سید احمد خان کے مخالف تھے۔ لیکن دونوں شخصیتوں پر گہری نظر رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ سر سید سے اکبر کا اختلاف شخصی نہیں بلکہ نظریاتی تھا۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اکبر الٰہ آبادی مغربی تہذیب اور برطانوی عادات و اطوار سے انتہائی درجہ نفرت کرتے تھے۔ سر سید سے اختلاف بھی اسی سلسلے میں تھا، ورنہ اپنی زندگی کی آخر وقت میں انھوں نے سر سید کے کاموں کی تعریف کئی اشعار کے ذریعہ کی ہے۔ اس اشعار کو پڑھ کرآپ کو یہ بھی اندازہ ہوگا کہ وہ سر سید کی کارگزاری سے خوش تھے اور ان کے ذریعہ کئے گئے کاموں کے دلدادہ بھی۔صدیق الرحمن قدوائی نے اپنی کتاب ’انتخاب اکبرالہ آبادی ‘ میں اس تعلق سے بہت خوب لکھا ہے اور سرسید و حالی کی طرح اکبر کو بھی اصلاح پسند ادیب قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’ اکبر کے نزدیک شاعری کا مقصد زندگی کی تنقید و اصلاح تھا۔ سرسید تحریک کے علمبرداروں نے اور اکبر نے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق شاعری کے ذریعے قومی اصلا ح کی کوشش کی۔سماجی اعتبار سے متضاد نقطہ نظر رکھنے کے باوجود سرسید، حالی اور اکبر یکساں ادبی نقطہ نظر کے حامل تھے‘‘۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اکبرالہ آبادی نے انگریزی زبان یا مغرب کی اچھی چیزوں کو اختیار کرنے سے منع نہیں فرمایا، اگر اپنی شاعری میں کہیں ’انگریزی‘ یا ’انگلش‘ کی تنقید کی ہے تو ان کا اشارہ انگریزی یا مغربی تہذیب کی طرف ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں جا بجا انگریزی الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے جو ثابت کرتا ہے کہ وہ انگریزی زبان کے مخالف نہیں تھے۔ اس کی مثال ان کے ہی اشعار سے ملاحظہ فرمائیے:
عاشقی کا ہو برا اس نے بگاڑے سارے کام
ہم توABمیں رہے اغیار BAہوگئے
تم شوق سے کالج میں پڑھو پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
پر ایک سخن بندہ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
اکبر الہ آبادی کو انگریزوں سے سخت درجہ کی نفرت تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے 1857 کی جنگ اور انگریزوں کے مظالم کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کالج و یونیورسٹیوں میں انگریزی طرز تعلیم کے خلاف خوب آواز اٹھائی۔ لسان العصر کے لقب سے سرفراز اکبر االہ آبادی نے ہمیشہ اسلامی تہذیب کا پاس رکھا اور مسلمانوں سے ہمیشہ یہی گزارش کی کہ وہ اپنی تابناک تہذیب و ثقافت سے دستبردار نہ ہوں۔ اس معاملے میں ان کا ذہن کافی حد تک علامہ اقبال سے وابستہ تھا، بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ علامہ اقبال اکبرالہ آبادی کو اپنا مرشد معنوی تصور کرتے تھے۔ اقبال نے اکبر الٰہ آبادی کے نام 6 اکتوبر 1911 کو لکھے ایک خط میں اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’میں آپ کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس نگاہ سے کوئی مرید اپنے پیر کو دیکھے اور وہی محبت اور عقیدت اپنے دل میں رکھتا ہوں، خدا کرے وہ وقت جلد آئے کہ مجھے آپ سے شرف نیاز حاصل ہو اور میں اپنے دل کو چیر کر آپ کے سامنے رکھ دوں۔ لاہور ایک بڑا شہر ہے لیکن میں اس ہجوم میں تنہا ہوں، ایک فرد واحد بھی ایسا نہیں جس سے دل کھول کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جا سکے‘‘۔ انھوں نے اپنے ایک شعر میں اس بات کا اظہار بھی کیا جو اس طرح ہے:
دعویٰ علم و فرد میں جوش تھا اکبر کو رات
ہو گیا ساکت جب ذکر اقبال آگیا
ادب صرف شعر و شاعری یا داستان گوئی و افسانہ سازی نہیں بلکہ تنقید حیات کا بھی نام ہے۔ ہر ادیب اپنی زندگی میں الگ الگ طریقے سے تنقید حیات کا کام کرتا رہتا ہے، اور اکبر الٰہ آبادی نے بھی اپنی ایک منفرد راہ اختیار کی تھی۔ ان کی شاعری جس قدرآسان فہم اور سہل ہوا کرتی تھی وہ اس سے کہیں زیادہ ذہین تھے۔ انہوں نے ادب ‘فلسفہ اور مذہب کی کتابیں خوب پڑھی تھیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے انگریزی کتاب’فیوچر آف اسلام ‘ کا سلیس اور با محاورہ ترجمہ بھی کیا۔ وہ ایک ذہین اور باصلاحیت انسان تھے جنھوں نے تحصیلداری بھی کی، عدالت خفیفہ کی منصفی بھی کی، سیشن جج بھی رہے اور اپنی خدمات کے باعث ’خان بہادر‘ کا خطاب بھی حاصل کیا۔ انہیں ہائی کورٹ میں جج بننے کا بھی موقع حاصل ہوا تاہم خرابی صحت کے سبب 1903 میں قبل از وقت وظیفہ پر سبکدوش ہوگئے۔ سبکدوشی کے بعد انھوں نے پوری طرح سے خود کو شعر و ادب اور اصلاحِ معاشرہ کے لئے وقف کر دیا۔ زندگی کے آخر وقت میں انھوں نے ایک زمانہ شناس، ماہر نباض اور حاذق حکیم کی صورت اختیار کی اور اپنی شاعری میں کھری کھری باتیں سنانے کے ساتھ ساتھ مرض کا علاج بھی بتایا۔ ان کی نظم ’تعلیم نسواں‘ اس کی بہترین مثال ہے جس میں انھوں نے انتہائی ناصحانہ انداز اختیار کیا ہے۔ اس نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے
لڑکی جو بے پڑھی ہو تو وہ بے شعور ہے
داتا نے دھن دیا ہے تو دل سے غنی رہو
پڑھ لکھ کے اپنے گھر ہی دیوی بنی رہو
مشرق کی چال ڈھال کا معمول اور ہے
مغرب کے ناز و رقص کا اسکول اور ہے
اکبر الٰہ آبادی کا نام جب بھی زبان پرآتا ہے تو لوگ کے چہرے پر مسکراہٹ نظرآنے لگتی ہے اور ان کے مزاحیہ اشعار ذہن میں گردش کرنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے قطعی انکار ممکن نہیں کہ وہ اصلاح ملت کے عظیم علمبردار ہیں۔ وہ مزاحیہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ جدید فلسفی شاعر بھی تھے۔ اس عظیم اور خاکسار شاعر کا انتقال 9 ستمبر 1921 کو الٰہ آباد میں ہوا اور یہیں کی خاک میں دفن کئے گئے۔ اس مشہور عام شاعر کے بے شمار اشعار ہیں جو لوگوں کی زبان زد ہیں۔آخر میں پیش ہیں کچھ ایسے ہی اشعار جنھیں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا:
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
اک دن تھا وہ کہ دب گئے تھے لوگ دین سے
اک دن یہ ہے کہ دین دبا ہے مشین سے
بتاؤں آپ سے مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا
Leave a Comment