خواجہ حیدر علی آتش، امام بخش ناسیخ ۔ایک موازنہ

حیدر علی آتش اور امام بخش ناسخ

دبستان لکھنؤ کی صحیح نمائندگی کا جہاں تک تعلق ہے اس سلسلے میں امام بخش ناسخ اور آتش کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ محاکمہ کرتے ہوئے آتش کوترجیح دیتے ہیں۔ اور لکھتے ہیں: ” میں تو یہ کہوں گا کہ لکھنوی ادب اور شاعری کا صحیح نمائندہ آتش ہی تھا ناسخ نہ تھا۔ کیونکہ آتش کے کلام میں اسی زندگی کی لطافتوں کی روح کھچ کر اس طرح جلوہ گر ہو گئی ہے جس طرح شراب کے جوہر میں شراب روح کی طرح کشید ہو کر سراپا لطافت بن جاتی ہے۔ اور اگر غور کیا جائے تو آتش کی شاعری لکھنوی شاعری کی ہی روح ِ لطیف ہے۔ آتش ہی لکھنؤ کا وہ بڑا شاعر تھا جس نے لکھنؤ کے مشاعروں کے لیے بھی لکھا اور اپنے لیے بھی شاعری کی اور اس کی یہی شاعری ہے جس میں لکھنؤ کا وہ ادب پیدا ہو گیا ہے جس کی حیثیت مستقل ہے۔“

ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمیٰ نے بھی اپنی تصنیف ”مقدمہ کلا م آتش“ میں نقطہ پیش کیا ہے کہ

” آتش ہی لکھنوی دبستان کی نمائندگی کا حق رکھتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ناسخ کے پاس صرف کرتب تھا استادی اور زبان دانی کا دعویٰ تھا۔ لیکن آتش اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھے۔ وہ وجدان اور احساس جمال کے مالک تھے ۔۔۔۔ آتش کا کلام سونے پر سہاگہ کی حے ثے ت رکھتا ہے۔ ناسخ، تخلیقی قوت کے فقدان کی وجہ سے ذہنی ورزش کی طرف مائل رہے۔ اس لیے ان کا کلام زندگی سے دور جا پڑا اور اس میں کوئی رس باقی نہ رہا۔

بقول رام بابو سکسینہ ”میر و غالب کے بعد اگر کسی کا مرتبہ ہے تو وہ آتش ہے۔“

ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی بھی اس خیال کے حامی ہیں کہ آتش کو ناسخ پر فوقیت حاصل ہے۔ کلیم الدین احمد اپنے مخصوص انداز میں لکھتے ہیں: ” ہر ذی فہم واقف ہے کہ آتش شاعر تھے اور ناسخ شاعری کے لیے تخلیق نہیں کیے گئے تھے۔“

آل احمد سرور نے لکھنؤ کے ادب پر تنقید کرتے ہوئے آتش و ناسخ پر بھی رائے زنی کی ہے، ” ناسخ کی شاعر ی میں نشتریت سرے ہی سے نہیں وہ جس طرح باقاعدہ ورزش کرتے ہیں اسی طرح ڈھلے ڈھلائے شعر کہتے ہیں۔ ناسخ خودار انسان تھے انہوں نے کبھی اپنے آپ کو ذلیل نہ کیا مگر شاعر وہ بہت معمولی تھے۔ آتش کے یہاں جذبہ بھی ہے۔ گرمی بھی ہے۔ اور گداز بھی وہ دربار سے متعلق نہیں تھے۔

گویا یہ بات طے ہو گئی ہے کہ آتش ہی اے ک اے سے سخنور ہے ں جو ہر معے ار کے مطابق دبستان لکھنؤ کے نمائندہ کے طور پر تسلیم کیے جا سکتے ہیں۔ اور اردو شاعری کے ہر بڑے نقاد کی رائے بھی یہی ہے۔

دہلویت اور لکھنویت کا امتزاج ترميم
آتش کو اگرچہ بجا طور پر لکھنوی دبستان کا نمائندہ شاعر تسلیم کیاجاتا ہے لیکن اس کے باوصف اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وہ صرف لکھنؤ ی دبستان کے شاعر نہیں بلکہ دبستان دہلی اور لکھنؤ کے سنگم پر کھڑے ہیں۔ ان کے ہاں خارجی اور داخلی دونوں کیفیتیں ملتی ہیں۔ چنانچہ حسن ِ صورت کی تعریف کے ساتھ ساتھ حسنِ سیرت کی توصیف بھی ملتی ہے۔ گویا ان کے یہاں لکھنویت کا رنگ اور دہلویت کی خوشبو دنوں موجود ہیں،

دہلوی اثرات ترميم
کسی نے مول نہ پوچھا دل شکستہ کا

کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا

آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اُٹھ بھی کھڑے ہوئے

میں جا ہی ڈھونڈ تا تیری محفل میں رہ گیا

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو ایک قطرہ خوں نہ نکلا

لکھنوی اثرات ترميم
ہر شب شب ِ برات ہے ہر روز روزِ عید

سوتا ہوں ہاتھ گردن ِ مینا میں ڈال کے

شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا

بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا

آتش کی غزل گوئی ترميم
آتش کی شاعری اس کے کردار کا مرقع ہے۔ اس کے کلام میں وہی سرور و نزہت ہے جو جنگل کی مست ہوائوں میں، وہی روانی ہے جو بہتے دریائوں میں، وہی موسیقی ہے جو ستاروں کی چمک او ر کل نظام ِ فطرت میں ہے۔ وہ ایک آزاد شاعر تھے جو شعر کہتے وقت یہ بھول جاتا ہے کہ اس کا مذہب کیا ہے۔

آتش نوائی:۔ ترميم
بقول آل احمد سرور:

” آتش کے یہاں جذبہ بھی ہے، گرمی بھی اور گداز بھی۔“

آتش کے کلام میں گرمی بہت ہے غالباً تخلص کی رعایت سے اصلاح استعمال کی گئی ہے۔ لیکن اس میں کلام نہیں کہ ایسے اشعار بھی موجود ہیں جن میں تلخی حالات کی کارفرمائی نمایاں طور پر موجود ہے اسی زمانے کے سے اسی خلفشار، ذہنی انتشار اور تذبذب کی کیفیت کو پیش نظر رکھیے اور پھر اس قسم کے اشعار پڑھیے؟

بخت بند نے مجھے ہر چند مٹایا آتش

رہ گیا نام مرا گنبد گرداں کے تلے

مشتاق درد عشق جگر بھی ہے دل بھی ہے

No comments

Powered by Blogger.