ٹیچر ڈے اور ٹیچر کا مقام

موضوع :- ٹیچرز ڈے



دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر

5 اکتوبر 1994 کے بعد آج کا دن ٹیچرز ڈے کی مناسبت سے بڑے تزک و احتشام سے اور عقیدت سے منایا جاتا ہے ۔ بے حد خوشی کی بات ہے کہ کوئی ایک دن تو استاد کے ادب و احترام کے لیے مخصوص ہے لیکن دوسری طرف افسوس کا مقام ہے کہ صرف ایک ہی دن استاد کو بڑی محبت و عقیدت پیش کی جاتی ہے اور بقیہ پورا سال معاشرے میں اس استاد کی قدر نہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم روایتی مسلمان ہیں ۔ رمضان المبارک لگتے ہی نمازیں شروع کردیں اور پھر عید کا چاند چڑھتے ہی نماز چھوڑ دیتے ہیں ۔
اسی طرح مخصوص دن ہیں جو روایتی طور پر منائے جاتے ہیں ۔

استاد کون ہے ؟
اگر میں اس سوال کو زیر بحث لاؤں تو لفظ "استاد" پر سیر حاصل گفتگو دیکھنے کو ملے گی ۔ علم اللہ پاک کی نعمت ہے جو قرآن و حدیث کی صورت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمایا گیا ۔ اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ رب العزت نے ایک استاد کا درجہ دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 سال کے مختصر دورانیے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پڑھایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے جس کا مفہوم ہے " بے شک میں معلم (استاد) بنا کر بھیجا گیا ہوں " ۔
یہاں سے ایک استاد کی قد و منزلت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس ہستی کے لیے کائنات بنائی گئی اسے اللہ رب العزت نے معلم کا پیشہ دیا۔
استاد وہ ہستی ہے جسے اگر میں والد کہوں تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ والد اپنی اولاد کی تربیت کرتا ہے اور ایک استاد اس وقت بچے کی تربیت کرتا ہے جب وہ تختی پر الٹی ٹیڑھی لائنیں لگاتا ہے تو استاد اسے سمجھاتا ہے "بیٹا الف لکھو اور لکھو الف سے اللہ ، ب سے بسم اللہ "۔  جب ایک استاد"الف اور ب" سکھاتا ہے اور جب طالب علم "الف" لکھتا ہے تو یہ اس کا ثبوت ہوتا ہے کہ اللہ ہی وہ ذات ہے جو سب کچھ ہے اور "ب" لکھنے پر "بسم اللہ" یعنی ہمارے دین کا یا دنیا کا کوئی بھی کام ہو وہ بسم اللہ سے شروع ہوتا ہے۔
طالب علم کو یہ سب استاد ہی کی بدولت سمجھ آتا ہے اس لیے استاد کا طالب علم پر شروع سے احسان ہو جاتا ہے ۔
استاد وہ ہے  جو تمیز سکھاتا ہے ۔ جو ادب سکھاتا ہے ۔ جو آداب معاشرت سکھاتا ہے۔ جو ایک نا بلد اور نا سمجھ کو انسان بنا کر انسانیت کا درس دیتا ہے ۔
استاد وہ ہے جو جنت کا راستہ دکھاتا ہے ۔ جو والدین کی قدر سکھاتا ہے۔ جو علم کی روشنی سے ہمارے قلوب کو منور و تابند فرما کر اسے دوسروں تک پہنچانے اور خود اس سے مستفید ہونے کا درس دیتا ہے ۔
استاد عزت سکھاتا ہے ۔ استاد محبت سکھاتا ہے ۔ استاد دنیاوی و اخروی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے درس دیتا ہے ۔
ایک استاد کی قدر مجھ نا چیز سے کیا ہو پائے گی۔ بس استاد کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج اساتذہ کی محنت و مشقت اور پیار و محبت سے میں دو چار لفظ جوڑ لیتا ہوں ورنہ میری کیا مجال اور اگر اساتذہ نہ سکھاتے تو میں کہاں سے دو چار لفظ سیکھتا؟
ماں کے پیٹ سے ؟
وہ تو ممکن ہی نہیں اس لیے اساتذہ کے مجھ پر بیشمار احسانات ہیں جن کا بدلہ دینا مجھ ناچیز کے لیے بہت مشکل ہے ۔
میرے استاد جی فرماتے ہیں "بچے شاگرد اگر استاد سے گریڈ میں اوپر بھی ہو تب بھی کہا جاتا ہے اس کا استاد کون تھا جس نے اسے پڑھایا" یعنی پیچھے استاد کی قدر ہوتی ہے کہ تربیت استاد ہی کی دی ہوئی ہے ۔
استاد ہیرے تراشتا  ہے اپنے علم سے ۔ وہ ایک دھول مٹی میں پڑے ہیرے کو دھو کر چمکاتا ہے اور اسے علم کی روشنی کے سامنے کرتا ہے باقی ہیرا اپنی چمک خود دکھاتا ہے اور نام استاد کا ہوتا ہے "یہ احسان استاد کا ہے" ۔

مزے کی بات تو یہ ہے یہ تحریر بھی خالصتاً اساتذہ کی محبت میں لکھ رہا ہوں اور اگر اساتذہ مجھے قدر، عذت اور علم نہ سکھاتے تو کہاں ممکن تھا میں یہ نثر لکھنے کی جسارت کرتا ۔
آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گا اللہ میرے اساتذہ کو لمبی عمر عطا فرمائے صحت کے ساتھ جن کے احسانات کی وجہ سے آج میں نے لکھنا سیکھا ہے اور جو میرے اساتذہ فوت ہوگئے ہیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
جہاں بھی اساتذہ کرام ہیں اللہ ان کو صحت والی لمبی زندگی عطاء کرے اور ان کے مسائل کو ختم فرمائے۔
نیچے تصویر میں چند اساتذہ ہیں جن کے سامنے میں نے زانوئے تلمذ تہہ کرکے علم کی تشنگی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے
دعا ہے اللہ مجھے اساتذہ کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

آخر میں ایک حاطب صاحب کی ایک نظم

"استادِ محترم کو میرا سلام کہنا "

کتنی  محبتوں سے پہلا سبق پڑھایا
میں کچھ نہ جانتا تھا، سب کچھ مجھے سکھایا۔

  ان پڑھ تھا اور جاہل، قابل مجھے بنایا
دنیائے علم و دانش کا راستہ دکھایا

اے دوستو ملیں تو بس ایک پیام کہنا
استادِ محترم کو میرا سلام کہنا

مجھ کو خبر نہیں تھی ،آیا ہوں میں کہاں سے
ماں باپ اس زمیں پر لائے تھے آسمان سے

پہنچا دیا  فلک تک استاد نے یہاں
واقف نہ تھا ذرا بھی ، اتنے بڑے جہاں سے

مجھ کو دلایا کتنا اچھا مقام، کہنا
استادِ محترم کو میرا سلام کہنا

جینے کا فن سکھایا ، مرنے کا بانکپن بھی
عزت کے گر بتائے، رسوائی کے چلن بھی

کانٹے ںج راہ میں ہیں ، پھولوں کے انجمن بھی
تم فخر قوم بننا اور نازش وطن بھی

ان کی عطا سے چمکا حاطب کا نام کہنا
استاد محترم کو میرا سلام کہنا

ہیپی ٹیچرز ڈے ۔۔۔

No comments

Powered by Blogger.